Saturday 27 May 2017

**حضرت محمد ﷺ * *

یہ واقعہ جب بھی پڑھا یا سنا
فرطِ جذبات سے آنکھیں اشکبار ہو گئیں......
نبى کریم صلى الله عليه وسلم کی وفات کا وقت جب آیا اس وقت آپ صلى الله عليه وسلم کو شدید بخار تھا_
آپ نے حضرتِ بلال رضی الله تعالى عنه کو حکم دیا کہ مدینه میں اعلان کردو کہ جس کسی کا حق مجھ پر ہو وہ مسجدِ نبوی میں آکر اپنا حق لے لے_
مدینہ کے لوگوں نے یہ اعلان سُنا تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور مدینہ میں کہرام مچ گیا، سارے لوگ مسجدِ نبوی میں جمع ہوگئے صحابه کرام رضوان الله کی آنکھوں میں آنسوں تھے دل بے چین وبے قرار تھا_
پھر نبى کریم صلى الله عليه وسلم تشریف لائے آپ کو اس قدر تیز بخار تھا کہ آپ کا چہره مبارک سرخ ہوا جارہا تھا_
نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے فرمایا اے میرے ساتھیو! تمھارا اگر کوئی حق مجھ پر باقی ہو تو وہ مجھ سے آج ہی لے لو میں نہیں چاہتا کہ میں اپنے رب سے قیامت میں اس حال میں ملوں کہ کسی شخص کا حق مجھ پر باقی ہو یہ سن کر صحابه کرام رضوان الله کا دل تڑپ اُٹھا مسجدِ نبوی میں آنسوؤں کا ایک سیلاب بہہ پڑا، صحابه رو رہے تھے لیکن زبان خاموش تھی کہ اب ہمارے آقا ہمارا ساتھ چھوڑ کر جارہے ہیں_
اپنے اصحاب کی یہ حالت دیکھ کر فرمایا کہ "اے لوگوں ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے"
میں جس مقصد کے تحت اس دنیا میں آیا تھا وہ پورا ہوگیا ہم لوگ کل قیامت میں ملیں گے۔
ایک صحابی کھڑے ہوئے روایتوں میں ان کا نام عُکاشہ آتا ہے عرض کیا یا رسول الله میرا حق آپ پر باقی ہے آپ جب جنگِ اُحد کے لئے تشریف لے جارہے تھے تو آپ کا کوڑا میری پیٹھ پر لگ گیا تھا میں اسکا بدلہ چاہتا ہوں_
یہ سن کر حضرت عمر رضی الله تعالى عنه کھڑے ہوگئے اور کہا کیا تم نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدلہ لوگے؟ کیا تم دیکھتے نہیں کہ آپ صلى الله عليه وسلم بیمار ہیں_
اگر بدلہ لینا ہی چاہتے ہو تو مجھے کوڑا مار لو لیکن نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے بدله نہ لو
یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا "اے عمر اسے بدله لینے دو اسکا حق ہے اگر میں نے اسکا حق ادا نہ کیا تو الله کی بارگاہ میں کیا منہ دکھاؤنگا اسلئے مجھے اسکا حق ادا کرنے دو_
آپ نے کوڑا منگوایا اور حضرت عُکاشہ کو دیا اور کہا کہ تم مجھے کوڑا مار کر اپنا بدله لے لو_
حضرات صحابہ كرام رضوان الله یہ منظر دیکھ کر بے تحاشہ رو رہے تھے حضرت عُکاشہ نے کہا کہ اے الله کے رسول ! میری ننگی پیٹھ پر آپکا کوڑا لگا تھا یہ سن کر نبى کریم صلى الله عليه وسلم نے اپنا کُرتہ مبارک اُتار دیا اور کہا لو تم میری پیٹھ پر کوڑا مار لو، حضرتِ عُکاشہ نے جب اللہ کے رسول صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو دیکھا تو کوڑا چھوڑ کر جلدی سے آپ صلى الله عليه وسلم کی پیٹھ مبارک کو چُوم لیا اور کہا یا رسول الله
"فَداکَ أبِی واُمی"
میری کیا مجال کہ میں آپ کو کوڑا ماروں میں تو یہ چاہتا تھا کہ آپکی مبارک پیٹھ پر لگی مہر نبوّت کو چوم کر جنّت کا حقدار بن جاؤں_
یہ سن کر آپ صلى الله عليه وسلم مسکرائے اور فرمایا تم نے جنّت واجب کرلی_
)الرحیق المختوم صفحہ نمبر 628(
سبحان الله
اے رب كريم! ہميں بھی نبى کریم صلى الله عليه وسلم سے سچی محبت کا جزبہ عطا فرما_
ایک بار سبحان اللہ کہہ کر ضرور شیئر کریں !
جزاکم اللہ خیراً

طالب دعا # مدثر آفتاب اعوان .اٹک .سگھری

Monday 22 May 2017

بھوک

غربت کی تیز آنچ پر اکثر پکائی بھوک
خوشحالیوں کے شہر میں کیا کچھ نہیں کیا

دوستی .. Dosti

زندگی کے طوفان کا ساحل ہے تیری دوستی
دل کر ارمانوں کی منزل ہے تیری دوستی

زندگی بن جائے گی جنت.......!!!!
اگر سدا ساتھ ریی تیری دوستی

☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆☆
Zindagi Ke Tohfan Ka Sahil Hai Teri Dosti,
Dil Ke Armaano Ki Manzil Hai Teri Dosti,
Zindagi Ban Jayegi Jannat,
Agar Sada Saath Rahegi Teri Dosti

عشق

ﺍﺑﮭﯽ ’’ #ﻉ ‘‘ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺗُﻮ ﺳﻮﭼﮯ ﻣﺠﮭﮯ_❤
ﭘﮭﺮ’’ #ﺵ ‘‘ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺗِﺮﯼ #ﻧﯿﻨﺪ ﺍُﮌﮮ_ ❤
ﺟﺐ ’’ #ﻕ ‘‘ ﻟﮑﮭﻮﮞ ﺗُﺠﮭﮯ #ﮐُﭽﮫ ﮐُﭽﮫ ﮨﻮ_❤
ﻣَﯿﮟ ’’#ﻋِﺸﻖ ‘‘ ﻟِﮑﮭﻮﮞ ﺗُﺠﮭﮯ ﮨﻮ ﺟﺎﺋﮯ_❤

..✯✯✯✯✯✯مدثر آفتاب✯✯✯✯✯

Monday 24 April 2017

غزل

پہلی بار نظروں نے چاند بولتے دیکھا
ہم جواب کیا دیتے کھو گئے سوالوں میں

رات تیری یادوں نے دل کو اس طرح چھیڑا
جیسے کوئ

ی چٹکی لے نرم نرم گالوں میں

یوں کسی کی آنکھوں میں صبح تک ابھی تھے ہم
جس طرح رہے شبنم پھول کے پیالوں میں

میری آنکھ کے تارے اب نہ دیکھ پاؤ گے
رات کے مسافر تھے کھو گئے اجالوں میں

جیسے آدھی شب کے بعد چاند نیند میں چونکے
وہ گلاب کی جنبش ان سیاہ بالوں میں

Saturday 22 April 2017

کہانی

ملک فارس ( موجودہ ایران ) کا بادشاہ بہت دنوں سے پریشان تھا۔ یوں تو ہر طرف خوش حالی کا دور تھا ، مگر بادشاہ کی پریشانی کی وجہ اس کی اکلوتی بیٹی شہزادی ثنا تھی۔ ہر باپ کی طرح بادشاہ بھی اپنی بیٹی کی شادی کر کے اپنے فرض سے دوش ہونا چاہتا تھا، لیکن شہزادی ثنا نے بھی عجیب اعلان کر رکھا تھا کہ جو شخص اس سوالوں کے درست جواب دے گا وہ اس سے شادی کرے گی۔

آس پاس کی ریاستوں کے کئی شہزادے آئے مگر نا کام لوٹ گئے۔ اس ملک میں نوجوان طالب علم بھی رہتا تھا ، اس کا نام اعظم تھا ۔ اس نے اپنے والد سے کہا کہ وہ بھی اپنی قسمت آزما نا چاہتا ہے۔ اعظم کے والد اُستاد تھے اور کئ برسوں سے لوگوں میں علم کی روشنی بانٹ رہے تھے۔ ملک فارس کا وزیراعظم ، بڑے بڑے درباری اور شہر کا قاضی بھی ان کا شاگرد تھا۔ باپ نے بیٹے کی خواہش دیکھی تو بولے: بیٹا ! اگر تو نا کام لوٹا تو تیرا کچھ نہیں جائے گا ، لوگ کیا کہیں گے کہ ایک استاد کا بیٹا نا کام ہوگیا۔ اعظم اپنے باپ سے کہنے لگا : بابا ! بڑے بڑے شہزادے لوٹ گئے۔ اگر میں بھی نا کام ہو گیا تو کیا ہوا، یہ تو مقابلہ ہے جو بھی جیت لے اور شاید وہ خوش نصیب میں ہی ہوں۔ آخر باپ کو بیٹے کی ضد ماننی پڑی۔ اعظم خوشی خوشی محل کی طرف چل پڑا۔ شہر بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ ایک عالم کا بیٹا قسمت آزمانے محل میں چلا آیا ہے۔ مقررہ وقت پر محل لوگوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا ۔ بادشاہ تخت پر بیٹھا تھا ۔ ملکہ عالیہ بھی محل میں موجود تھیں ۔ وزیر ، امیر ، درباری ، اور عوام الناس سب دربار میں موجود تھے۔ آخر شہزادی نے اپنا پہلا سوال کر ڈالا۔ اُس نے شہادت کی انگلی فضا میں بلند کی۔ اعظم نے کچھ دیر توقف کیا اور پھر شہادت والی انگلی کے ساتھ والی اگلی بھی فضا میں بلند کی ۔ یہ دیکھ کر شہزادی مسکرا اٹھی اور ملکہ عالیہ بولی : شاباش ، اے نوجوان ! تم پہلا مرحلہ کام یابی سے طے کر گئے ہو۔

دوسرے سوال کے لیے شہزادی کرسی سے اٹھی اور ہاتھ میں تلوار لے کر ہوا میں چلانے لگی ۔ کچھ دیر بعد وہ دوبارہ اپنی نشست پر آکر بیٹھ گئی ۔بادشاہ سمیت ہر درباری کی نظر اعظم پر تھی ۔ اعظم کھڑا ہوا اور اپنی جیب سے قلم نکال کر فضا میں بلند کردیا۔ شاباش اے نوجوان ! ہم خوش ہوئے ۔ یہ جواب بھی درست ہے ۔ ملکہ عالیہ کی آواز دربار میں ابھری۔ اسی کے ساتھ دربار ، مبارک ہو ، مبارک ہو ، کی آواز سے گونج اٹھا ۔ دوسوالات کیا تھے ؟ ان کے جوابات کیا تھے ، اب ہر شخص اس پر غور کر رہا تھا کہ شہزادی نے کیا پوچھا اور اعظم نے کیا جواب دیا ؟ لوگوں کے لیے یہ ایک راز تھا ۔ آخر شہزادی نے تیسرا سوال کر ڈالا۔ وہ تیزی سے سیڑھیاں اُتری اور تیزی سے سیڑھیاں چڑھ کر دوبارہ اپنی نشست پر بیٹھ گئی۔ یہ بڑا عجیب و غریب سوال تھا۔ ہر طرف خاموشی تھی۔ لوگوں کی سانسیں رُکی ہوئی تھیں ۔ اب تو اعظم کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوئے جا رہے تھے ۔ آخر اعظم کھڑا ہوا اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر شہزادی کی طرف دیکھنے لگا ۔ مرحبا ، مرحبا اے نوجوان ! مبارک ہو ! شہزادی نے تمھیں پسند کر لیا ہے۔ ملکہ عالیہ کی آواز کے ساتھ ہی شہزادی ثنا شرما کر محل کے اندرونی حصے میں چلی گئی اور محل مبارک باد کی آواز سے گونج اٹھا۔ لوگ خوشی سے جھوم رہے تھے۔ وہ دل ہی دل میں اللّٰه کا شکر ادا کر رہا تھا ، جس نے اُسے یہ اعزاز بخشا تھا۔ بادشاہ نے اعظم سے پوچھا : ” اے نوجوان ! ملکہ عالیہ کو تو تم نے مطمئن کر دیا ۔ اب یہ بتاؤ کہ تم سے کیا پوچھا گیا تھا اور تم نے کیا جواب دیا ؟

اگر تم نے ایک بھی غلط جواب دیا تو تمھاری گردن ماردی جائے گی ۔ اعظم پُر اعتماد انداز میں کھڑا ہوا اور بولا : بادشاہ سلامت ! شہزادی نے ایک انگلی کھڑی کر کے پوچھا تھا کہ تم کیا اللّٰه کو ایک مانتے ہو! میں نے دو اُنگلیاں کھڑی کر کے جواب دیا کہ اللّٰه اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر میر ایمان اٹل ہے۔ بہت خوب ! ہم خوش ہوئے ۔ بادشاہ نے مسکرا کر کہا۔ اعظم بولا :اس کے بعد شہزادی نے تلوار چلا کر پوچھا تھا کہ اس سے بڑا کوئی ہتھیار ہے؟ میں نے جواب دیا ہاں ، قلم کا وار تلوار کے وار سے زیادہ کارگر ہوتا ہے۔ ماشاءاللّٰه ! نوجوان ! تم نے ہمارا دل جیت لیا ۔ تم نے ثابت کر دیا کہ جاہ و جلال ، دولت و حشمت کی علم کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ، لیکن تیسرا جواب ؟ بادشاہ نے حوصلہ افزائی کرتے ہوئے پوچھا : اعظم نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہنے لگا : بادشاہ ! شہزادی دربار کی سیڑھیاں اُتریں اور چڑھیں ، کرسی پر تھک کر بیٹھ گئیں۔ انھوں نے پوچھا تھا کہ میں تھک چکی ہوں ، لیکن میرے جسم کی ایک چیز نہیں تھکی۔ میں نے جواب دیا ۔ دل ، یہ پیدایش سے لے کر موت تک بغیر تھکے دھڑکتا رہتا ہے۔ بادشاہ نے اعظم کو کو پاس بلا کر گلے سے لگا لیا اور کہا اے لوگو ! گواہ رہنا ، میں نے حق دار کا حق ادا کر دیا ہے ۔ میری بیٹی ایسے شخص کی بیوی بن ر

Thursday 20 April 2017

قصہ

ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺳﮯ ﮔﺰﺭﺗﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺍﯾﮏ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﺗْﻮ ﺗﮑﺎﺭ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺩﯾﺮ ﺑﺤﺚ ﻣﺒﺎﺣﺜﮧ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻼ ﮔﯿﺎ، ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﺎ ﻏﺼﮧ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺟﮕﮧ ﻗﺎﺋﻢ ﺗﮭﺎ۔ ﻭﮦ ﮐﺴﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﺱ ﺳﮯ ﺍﺱ ﻟﮍﺍﺋﯽ ﮐﺎ ﺑﺪﻟﮧ ﻟﯿﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﺟﺴﻤﺎﻧﯽ ﻃﻮﺭ ﭘﮧ ﮐﻤﺰﻭﺭ ﮨﻮﻧﮯ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺳﮯ ﻣﺎﺭ ﭘﯿﭧ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮ ﺳﮑﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺍﯾﮏ ﺍﻭﺭ ﺣﻞ ﻧﮑﺎﻻ۔۔۔
ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ " ﺍﻓﻮﺍﮦ " ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯼ ﮐﮧ ﻭﮦ " ﭼﻮﺭ " ﮨﮯ۔ ﻭﮦ ﮨﺮ ﺭﮦ ﮔﺰﺭ ﺳﮯ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﺗﺎ۔۔۔ ﮐﺌﯽ ﻟﻮﮒ ﺍﺳﮑﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﻮ ﺍﻥ ﺳﻨﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪ ﻟﻮﮒ ﯾﻘﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻟﯿﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﮔﺰﺭﮮ ﺗﻮ ﭘﺎﺱ ﮐﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﮐﯽ ﭼﻮﺭﯼ ﮨﻮﮔﺌﯽ۔ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺷﮏ ﮈﺍﻝ ﺩﯾﺎ ﺗﮭﺎ۔ ﭼﻮﺭﯼ ﮐﮯ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﻣﯿﮟ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﻮ ﭘﮑﮍ ﻟﯿﺎ ﮔﯿﺎ۔۔ ﻟﯿﮑﻦ ﭼﻨﺪ ﮨﯽ ﺩﻧﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺻﻞ ﭼﻮﺭ ﮐﺎ ﭘﺘﺎ ﻟﮕﻨﮯ ﭘﮧ ﺍﺳﮯ ﮐﻮ ﺭﮨﺎﺋﯽ ﻣﻞ ﮔﺌﯽ۔۔
ﺭﮨﺎ ﮨﻮﺗﮯ ﮨﯽ ﺍﺱ ﻧﮯ ﻋﻼﻗﮯ ﮐﮯ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﺳﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﺁﺩﻣﯽ ﮐﯽ ﺷﮑﺎﯾﺖ ﮐﯽ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺑﻨﺎ ﭘﮧ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﭘﻨﭽﺎﺋﯿﺖ ﻣﯿﮟ ﺑﻼﯾﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﺑﭽﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺻﻔﺎﺋﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﯽ۔۔ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﻮ ﺣﮑﻢ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﻮ ﺟﻮ ﺍﻓﻮﺍﮦ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ ﮨﮯ۔۔ ﻭﮦ ﺳﺐ ﺍﯾﮏ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﻟﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭼﮭﻮﭨﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮐﺮﮐﮯ ﭼﻮﺭﺍﮨﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎ ﮐﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﺩﮮ۔۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﮐﯽ ﻗﺴﻤﺖ ﮐﺎ ﻓﯿﺼﻠﮧ ﮨﻮﻧﺎ ﺗﮭﺎ۔
ﺑﻮﮌﮬﺎ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﺎ ﺣﮑﻢ ﺑﺠﺎ ﻟﯿﺎ۔۔ ﮐﺎﻏﺬ ﭘﮧ ﺳﺐ ﮐﭽﮫ ﻟﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﮯ۔ ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺟﺐ ﭘﻨﭽﺎﺋﯿﺖ ﻟﮕﯽ ۔۔ ﺳﺒﮭﯽ ﻟﻮﮒ ﺟﻤﻊ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﺭﺣﻢ ﮐﯽ ﺍﺳﺘﺪﻋﺎ ﮐﯽ۔۔ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺳﺰﺍ ﺳﮯ ﺑﭽﻨﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺳﺎﺭﮮ ﭨﮑﮍﮮ ﺟﻤﻊ ﮐﺮﮐﮯ ﻻﺋﮯ ﺟﻮ ﮐﻞ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ ﺍﮌﺍ ﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﺑﻮﮌﮬﺎ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ ﮨﻮ ﮐﮯ ﺑﻮﻻ ﮐﮧ ' ﯾﮧ ﺗﻮ ﻧﺎﻣﻤﮑﻦ ﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮨﮯ '
ﺳﺮﺩﺍﺭ ﻧﮯ ﺟﻮﺍﺏ ﺩﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﮨﻮﺍ ﻣﯿﮟ " ﺍﻓﻮﺍﮦ " ﭘﮭﯿﻼﺋﯽ۔۔ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﺑﮭﯽ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﯾﮧ " ﺍﻓﻮﺍﮦ " ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﭘﮩﻨﭽﯽ ﮨﻮﮔﯽ۔۔۔ ﺍﮔﺮ ﺗﻢ ﮐﺎﻏﺬ ﮐﮯ ﭨﮑﮍﮮ ﻭﺍﭘﺲ ﻧﮩﯿﮟ ﻻ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ " ﺍﻓﻮﺍﮦ " ﮐﯿﺴﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﻻﺅ ﮔﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﻧﻮﺟﻮﺍﻥ ﺑﺪﻧﺎﻡ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ۔ ﺑﻮﮌﮬﮯ ﻧﮯ ﻧﺪﺍﻣﺖ ﺳﮯ ﺳﺮ ﺟﮭﮑﺎ ﻟﯿﺎ۔۔۔
ﯾﮧ ﺍﻧﮕﺮﯾﺰﯼ ﺯﺑﺎﻥ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﭼﮭﻮﭨﺎ ﺳﺎ ﻗﺼﮧ ﮨﮯ۔ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮭﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺍﯾﮏ ﺑﮩﺖ ﺑﮍﺍ ﺳﺒﻖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ۔
ﮐﺌﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﻢ ﺑﻨﺎ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﮯ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺎﺭﮮ ﻣﯿﮟ " ﺍﻓﻮﺍﮨﯿﮟ " ﭘﮭﯿﻼﻧﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﺮﺩﯾﺘﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﺑﻨﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﺳﻤﺠﮭﮯ ﮐﯽ ﮔﺌﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﭘﮧ ﮐﺘﻨﺎ ﺍﺛﺮ ﺍﻧﺪﺍﺯ ﮨﻮ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ ﺍﺳﮑﺎ ﺷﺎﺋﺪ ﮨﻤﯿﮟ ﺍﻧﺪﺍﺯﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﮭﻮﻟﻨﮯ ﺳﮯ ﭘﮩﻠﮯ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﺑﮩﺖ ﺿﺮﻭﺭﯼ ﮨﮯ